Saqi Nama
SAKINAMA
Stanza (1)
ہُوا خیمہ زن کاروانِ بہاراِرم بن گیا دامنِ کوہسار
Huwa Khaimazan Karwan-E-Bahar
Iram Ban Gya Daman-E-Kohsar
Spring’s caravan has pitched its tent
At the foot of the mountain, making it look like the fabled garden of Iram
گُل و نرگس و سَوسن و نسترنشہیدِ ازل لالہ خونیں کفن
Gul-O-Nargis-O-Sosan-O-Nastran
Shaheed-E-Azal Lalah Khooni Kafan
With a riot of flowers—iris, rose, narcissus, lily, eglantine,
And tulip in its martyr’s gory shroud.
جہاں چھُپ گیا پردۀ رنگ میںلہُو کی ہے گردش رگِ سنگ میں
Jahan Chup Gya Parda’ay Rang Mein
Lahoo Ki Hai Gardish Rag-E-Sang Mein
The landscape is all covered with a multicoloured sheet,
and color flows even in the veins of stones like blood.
فضا نِیلی نِیلی، ہوا میں سُرورٹھہَرتے نہیں آشیاں میں طیُور
Faza Neeli Neeli, Hawa Mein Suroor
Thehar Nahin Aashiyan Mein Tayoor
The breezes blow intoxicatingly in a blue sky,
so that the birds do not feel like remaining in their nests and fly about.
وہ جُوئے کُہستاں اُچکتی ہوئیاَٹکتی، لچکتی، سرکتی ہوئی
Woh Jooay Kohstan Uchakti Huwi
Atakti, Lachakti, Sirakti Huwi
Look at that hill‐stream. How it halts
and bends and glides and swings around,
اُچھلتی، پھِسلتی، سنبھلتی ہوئیبڑے پیچ کھا کر نِکلتی ہوئی
Uchalti, Phisalti, Sanbhalti Huwi
Bare Paich Kha Kar Niklti Huwi
Jumping, slipping and then, collecting itself,
surges up and rushes on.
رُکے جب تو سِل چِیر دیتی ہے یہپہاڑوں کے دل چِیر دیتی ہے یہ
Ruke Jab To Sil Cheer Deti Hai Ye
Paharon Ke Dil Cheer Deti Hai Ye
Should it be stemmed, it would burst the rocks
and cut open the hills’ hearts
ذرا دیکھ اے ساقی لالہ فام!سُناتی ہے یہ زندگی کا پیام
Zara Dekh Ae Saqi-E-Lalah Faam!
Sunati Hai Ye Zindagi Ka Payam
This hill‐stream, my fair saki,
has a message to give us concerning life.
پِلا دے مجھے وہ میء پردہ سوزکہ آتی نہیں فصلِ گُل روز روز
Pila De Mujhe Woh Mai-E-Parda Soz
Ke Ati Nahin Fasal-E-Gul Roz Roz
Attune me to this message and,
Come, let us celebrate the spring, which comes but once a year.
وہ مے جس سے روشن ضمیرِ حیاتوہ مے جس سے ہے مستیِ کائنات
Woh Mai Jis Se Roshan Zameer-E-Hayat
Woh Mai Jis Se Hai Masti-E-Kainat
Give me that wine whose Whose light illuminates life’s mind,
whose heat burns up the veils of hidden things,
وہ مے جس میں ہے سوزوسازِ ازلوہ مے جس سے کھُلتا ہے رازِ ازل
Woh Mai Jis Mein Hai Soz-O-Saaz-E-Azal
Woh Mai Jis Se Khulta Hai Raaz-E-Azal
Give me that wine whose heat burns up the veils of hidden things,
Whose light illuminates life’s mind,
اُٹھا ساقیا پردہ اس راز سےلڑا دے ممولے کو شہباز سے
Utha Saqiya Parda Iss Raaz Se
Lara De Mamoole Ko Shahbaz Se
Come lift the veil off mysteries,
And make a mere wagtail take eagles on.
Stanza (2)
زمانے کے انداز بدلے گئےنیا راگ ہے، ساز بدلے گئے
: تشریح
اس بند میں اقبالؒ نے حالاتِ حاضرہ اور مسلمانوں کی موجودہ حالت پر تبصرہ کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں ہر جگہ انقلاب کارفرما نظر آتا ہے۔بنی آدم کی طرزِ حیات میں عظیم الشان تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔نئی نئی تحریکیں پیدا ہورہی ہیں ،نئے راگ سے عصرِ حاضر کی جدید سیاسی اور عمرانی تحریکات مراد ہیں مثلاً اشتمالیت، اشتراکیت، نازیت اور فسطائیت۔
اشتمالیت(ایک ایسے معاشرے کا حامی نظریہ جس میں شخصی ملکیت ختم کرکے املاک کو قوم کی مشترکہ ملکیت بنایا جائے،قوم کے ہر فرد کو اپنی لیاقت کے مطابق کام کرنے اور ضرورت کے مطابق حصہ پانے کو استحقاق کا مسلک )
اشتراکیت(اشتراکی نظام یہ ہے کہ کسی بھی سماج کے تمام باسیوں کو ریاست ان کےحقوق دے وہ حقوق یہ ہیں کہ ہر باسی کو خوراک ،پوشاک ،رہائش،تعلیم،صحت کی سہولت و انصاف وہ ریاست فراہم کرنے کی ذمےدار ہے اگر کوئی ریاست ایسا نہیں کرتی تو پھر حکمرانوں کو حقِ حکمرانی نہیں دیا جاسکتا۔یہ فلسفہ یوں تو قدیم زمانے سے فلسفی بیان کررہے تھےالبتہ کارل مارکس۱۸۸۳-۱۸۱۸ نے اس فلسفی یعنی انسانی ضرورتوں کی زیادہ واضح و مکمل انداز میں پیش کیا ہے اور اس فلسفے کو مرکزم کانام دیا گیا ہے، حوالہ :اشتراکیت کیا ہے؟ از ایم اسلم،ایکپریس نیوز) نازیت(ایک نسل پرست قومی تحریک جو جرمنی میں شروع ہوئی۔اس تحریک کے مطابق ایک جرمن قوم باقی سب پر فضیلت رکھتی ہے۔جرمن حکمران ہٹلر کا اس تحریک میں اہم کردار تھا،ویکی پیڈیا) فسطائیت(فسطائیت اطالیہ میں بینیتو موزولینی کے ذریعہ منظم کی گئی تحریک ہے۔اس کی ابتدا ۱۹۱۹ء میں ہوئی۔ یہ ایک انتہا پسند قوم پرستی کے نظریہ پر مبنی ہے ویکی پیڈیا)
Zamane Ke Andaz Badle Gye
Naya Raag Hai, Saaz Badle Gye
The times have changed; so have their signs.
New is the music, and so are the instruments.
ہُوا اس طرح فاش رازِ فرنگکہ حیرت میں ہے شیشہ بازِ فرنگ
Huwa Iss Tarah Fash Raaz-E-Farang
Ke Hairat Mein Hai Sheesha Baaz-E-Farang
The magic of the West has been exposed,
And the magician stands aghast.
پُرانی سیاست گری خوار ہےزمیں مِیر و سُلطاں سے بیزار ہے
Purani Siasat Gari Khwaar
Zameen Mir-E-Sultan Se Baizar Hai
The politics of the ancient regime are in disgrace:
world is tired of kings.
گیا دَورِ سرمایہ داری گیاتماشا دِکھا کر مداری گیا
Gya Dour-E-Sarmaya Dari, Gya
Tamasha Dikha Kar Madari Gya
The age of capitalism has passed,
The juggler, having shown his tricks, has gone.
گراں خواب چِینی سنبھلنے لگےہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے
Garan Khawab Cheeni Sanbhalne Lage
Hamala Ke Chashme Ubalne Lage
The Chinese are awaking from their heavy sleep.
Fresh springs are bubbling forth from Himalayan heights.
دلِ طُورِ سینا و فاراں دو نِیمتجلّی کا پھر منتظر ہے کلیم
Dil-E-Toor-E-Seena-O-Faran Do Neem
Tajalli Ka Phir Muntazir Hai Kaleem
Cut open is the heart of Sinai and Faran,
And Moses waits for a renewed theophany.
مسلماں ہے توحید میں گرم جوشمگر دل ابھی تک ہے زُنّار پوش
Musalman Hai Touheed Mein Garam Josh
Magar Dil Abhi Taak Hai Zunnar Posh
The Muslim, zealous though about God’s unity,
Still wears the Hindu’s sacred thread around his heart.
تمدّن، تصوّف، شریعت، کلامبُتانِ عَجم کے پُجاری تمام!
: تشریح
تمدن: ۔کے لغوی معنی ہیں شہروں میں اجتماعی زندگی بسرکرنا۔مراد ہے طرزِ معاشرت۔اقبال کہتے ہیںکہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں بہت سی غیر اسلامی رسوم داخل ہوگئی ہیں۔(چونکہ ہر مسلمان اس سے واقف ہے اس لیے شواہد پیش کرنے کی ضرورت نہیںہے۔میری رائے میں تو پوری زندگی غیر اسلامی ہوچکی ہے۔۱۹۲۱ء میں ایک نام نہاد ہندو نے مجھ سے کہا تھا کہ اجمیر کے عرس میں شریک ہونے کے بعد یہ حقیقت مجھ پر منکشف ہوگئی کہ عقائد اور اعمال کے لحاظ سے ہندو اور مسلمان میں بہت زیادہ فرق نہیں۔ہندو جو کام مندروں میںکرتا ہے،مسلمان وہی کام درگاہوں میں کرتا ہے۔دونوں مشرک ہیں،پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
تصوّف:۔بمعنی اصلاحِ باطن یا تزکیہ نفس۔یہ اگر چہ بہت ضروری چیز ہے لیکن اس میں بعض دید انتی(دید،ہندوؤں کی مقدس کتاب)خیالات شامل ہوئے ہیں اور ان کا نتیجہ بے عملی اور ترکِ دنیا کی شکل میں ظاہر ہوا ہے۔جس نے مسلمانوں کے قوائے عملی کو مفلوج کردیا ہے
شریعت۔عقائد،عبادت اور معاملات کے مجموعہ کانام ہے۔اس میں بھی علمائے سُوء (علمائے سُوء سے مراد وہ علما ءہیں جو صرف لفظوں کا کھیل جانتے ہیں۔پس جب ایک عالم گمراہ ہوتا ہے وہ اپنے ساتھ اکثریت کو گمراہ کرتا ہے، حوالہ۔علمائے حق اور علمائے سُوء ، تحریر۔ مفتی منیب الرحمن)نے بعض غیر اسلامی باتیںداخل کردیں مثلاً اسلام میں ملوکیت (بادشاہت) ،رہبانیت(ترکِ دنیا)،احباریت،رضائیت اور سرمایہ داری بلکہ جاگیرداری کا جواز
کلام:۔سے وہ فن مراد ہے جس کی مدد سے سائنس اور فلسفہ کے مقابلہ میں اسلام کی حقانیت ثابت کی جاتی ہے۔اس فن میں بھی رفتہ رفتہ بعض غیرقرآنی عقائد اور اکثر غیر اسلامی مسائل راہ پائے گئے ہیں اور مسلمانوں نے اپنی دماغی صلاحیتوں کو بلاوجہ بے سود ان مسائل پر صائع کردیا ۔جیسے کہ جبروقدر کا عقیدہ اور اس کے متعلق مسائل،خلق قرآن کا مسئلہ اور رویتِ باری تعالیٰ کا مسئلہ وٖغیرہ وغیرہ
مسلمانوں کی زندگی کے یہی چار پہلو(تمدّن ،تصوّف ،شریعت،کلام)نمایاں ہیں افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ علمائے سُوءنے ان چاروںسرچشموں کو اپنی غفلت یا کوتاہ بینی کی بدلت کثیف اور کدّر کردیا
Tamadan, Tasawwuf, Shariat, Kalam
Butan-E-Ajam Ke Poojari Tamam!
In culture, mysticism, canon law and dialectical theology—
He worships idols of non‐Arab make.
حقیقت خرافات میں کھو گئییہ اُمّت روایات میں کھو گئی: تشریح
ان باتوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ اسلام کی حقانیت اور صداقت خرافات کے پردوں میں چھپ گئی اور قوم ۔۔۔۔جاہل قوم ۔۔۔۔کشتہ مٗلا و پیر۔۔۔۔قرآن و حدیث کی بجائے اسرائیلی او رغیرا سلامی روایات کی پیرو بن گئی۔قرآن مجید اصاف لفظوں میں حکم دیتا ہے :اور جس چیر کا علم نہ ہو اس کی پیروی مت کرو۔(کیونکہ )بلاشک قیامت کے دن کان،آنکھ اور دل ان سب سے باز پرس ہوگی
(سورۃ العسراء :32)
روایات:سے احادیث مراد نہیں ہیں بلکہ اسرائیلیات یعنی وہ قصے اور کہانیاں مراد ہیں جو علماء کی سہل نگاری یا غفلت شعاری کی بنا پر کتب تفاسیر،سیرت و مغازی و اخلاق میں اور صوفیاء کی کمزوری کی بدولت تصوف کی کتابوں اور حلقہ ذکر میں راہ پاگئیں۔ وہ کہانیاں جن کی کوئی حقیقت یا تاریخی سند نہیں۔ وہ کہانیاں جو سراسر اسلامی تعلیمات کی روح کے خلاف ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا طریقِ عمل اس آیتکے بلکل برعکس ہے۔ان کے عقائد کا دارومدار زیادہ تر انہین روایات پر ہے، جن کی کوئی سند نہیں ہے،یعنی جن کی صحت (کسی روایت کی صحت سے مراد اس کا جھوٹا یا سچا ہونا ہے)کا نہیں علم نہیں ہے
Haqiqat Khurafat Mein Kho Gyi
Ye Ummat Rawayat Mein Kho Gyi
The truth has been lost in absurdities,
And in traditions is this Ummah rooted still.
لُبھاتا ہے دل کو کلامِ خطیبمگر لذّتِ شوق سے بے نصیب!
Lubhata Hai Dil Ko Kalam-E-Khateeb
Magar Lazzat-E-Shauq Se Be-Naseeb!
The preacher’s sermon may beguile your heart,
But there is no sincerity, no warmth in it.
بیاں اس کا منطق سے سُلجھا ہُوالُغَت کے بکھیڑوں میں اُلجھا ہُوا
Byan Iss Ka Mantaq Se Suljha Huwa
Lughat Ke Bakheron Mein Uljha Huwa
It is a tangled skein of lexical complexities,
Sought to be solved by logical dexterity.
وہ صُوفی کہ تھا خدمتِ حق میں مردمحبت میں یکتا، حِمیّت میں فرد
Woh Sufi K Tha Khidmat-E-Haq Mein Mard
Mohabbat Mein Yakta, Hamiyyat Mein Fard
The Sufi, once foremost in serving God,
Unmatched in love and ardency of soul,
عَجم کے خیالات میں کھو گیایہ سالک مقامات میں کھو گیا
Ajam Ke Khayalat Mein Kho Gya
Ye Salik Maqamat Mein Kho Gya
Has got lost in the maze of Ajam’s ideas:
At half‐way stations is this traveller stuck.
بُجھی عشق کی آگ، اندھیر ہےمسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہیِ: تشریح
آج کل مسلمانوں کے علاوہ دنیا میں جتنی بھی قومیں ہیں،سب کی سب عشقِ وطن میں سرشار ہیں۔سب کا ایک ہی نعرہ ہے:۔
۔۱۔میرا وطن میری وفاداری کا مرکز ہے۔
۔۲۔میں اپنے وطن کےلیے جیوں گا اور اسی کےلیے مروں گا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مسلمان وطن پرستی تو نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی بنیادی تعلیم اس کے خلاف ہے۔قرآنِ حکیم کی تعلیم یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کےلیے جیتا ہے اور اسی کےلیے مرتا ہے،تو وہ وطن کےلیے کس طرح جی سکتا ہے۔اب رہی ترقی کی دوسری اور آخری صورت یعنی خدا پرستی،تو اس کےلیے مسلمان تیار نہیں ہے۔کیونکہ اس طریقِ حیات میں بلیک مارکیٹ،ذخیرہ اندوزی،اجارہ داری،سرمایہ داری،رشوت،خوری اور اقربانوازی کا کوئی امکان نہیں ہے اور مسلما ن ان“برکاتِ عالیہ” سے دست بردار نہیں ہونا چاہتا تو دنیا میں اس کی سربلندی کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ اس لیے اقبالؒ نے بلکل صحیح لکھا ہے کہ مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے۔
Bujhi Ishq Ki Aag, Andhair Hai
Musalman Nahin, Raakh Ka Dhair Hai
Gone out is the fire of love. O how sad!
The Muslim is a heap of ashes, nothing more.
Stanza (3)
شرابِ کُہن پھر پِلا ساقیاوہی جام گردش میں لا ساقیا!
Sharab-E-Kuhan Phir Pila Saqiya
Wohi Jaam Gardish Mein La Saqiya!
O Saki, serve me that old wine again,
Let that old cup go round once more.
مجھے عشق کے پَر لگا کر اُڑامری خاک جُگنو بنا کر اُڑا
Muhe Ishq Ke Par Laga Kar Ura
Meri Khaak Jugnu Bana Kar Ura
Lend me the wings of Love and make me fly.
Turn my dust to fireflies that flit about.
Khirad Ko Ghulami Se Azad Kar
Jawanon Ko Peeron Ka Ustad Kar
Free young men’s minds from slavery,
And make them mentors of the old.
ہری شاخِ مِلّت ترے نم سے ہےنفَس اس بدن میں ترے دَم سے ہے
Hari Shakh-E-Millat Tere Nam Se Hai
Nafs Iss Badan Mein Tere Dam Se Hai
The millat’s tree is green thanks to your sap:
You are its body’s breath.
تڑپنے پھٹرکنے کی توفیق دےدلِ مرتضیٰؓ، سوزِ صدّیقؓ دے
Tarapne Pharakne Ki Toufeeq De
Dil-E-Murtaza(R.A.), Souz-E-Siddique(R.A.) De
Give it the strength to vibrate and to throb;
Lend it the heart of Murtaza, the fervor of Siddiq.
Jigar Se Wohi Teer Phir Paar Kar
Tammana Ko Seenon Mein Baidar Kar
Drive that old arrow through its heart
Which will revive desire in it.
Tere Asmanon Ke Taron Ki Khair
Zameenon Ke Shab Zinda Daron Ki Khair
Blest be the stars of Your heavens; blest be
Those who spend their nights praying to You.
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دےمرا عشق، میری نظر بخش دے
Jawanon Ko Soz-E-Jigar Bakhs De
Mera Ishq, Meri Nazar Bakhs De
Endow the young with fervent souls;
Grant them my vision and my love.
Meri Nao Girdaab Se Paar Kar
Ye Sabat Hai Tu Iss Ko Syyar Kar
I am a boat in a whirlpool, stuck in one place.
Rescue me and grant me mobility.
Bata Mujh Ko Asrar-E-Marg-O-Hayat
K Teri Nigahon Mein Hai Kainat
Tell me about the mysteries of life and death,
For Your eye spans the universe.
Mere Didah-e-Tar Ki Be-Khawabiyan
Mere Dil Ki Poshida Be-Tabiyan
The sleeplessness if my tear‐shedding eyes;
The restless yearnings hidden in my heart;
مرے نالۀ نیم شب کا نیازمری خلوَت و انجمن کا گداز
Mere Nala-e-Neem Shab Ka Niaz
Meri Khalwat-o-Anjuman Ka Gudaz
The prayer-fulness of my cries at midnight;
My melting into tears in solitude and company;
اُمنگیں مری، آرزوئیں مریاُمیدیں مری، جُستجوئیں مری
Umangain Meri, Arzoo’ain Meri
Umeedain Meri, Justujoo’ain Meri
مری فطرت آئینۀ روزگارغزالانِ افکار کا مرغزار
Meri Fitrat Aayna-E-Rozgaar
Gazaalan-E-Afkaar Ka Marghzaar
My aspirations, longings and desires;
My hopes and quests; my mind that mirrors
the times (A field for thought’s gazelles to roam);
مرا دل، مری رزم گاہِ حیاتگمانوں کے لشکر، یقیں کا ثبات
Mera Dil, Meri Razm Gah-E-Hayat
Gamanon Ke Lashkar, Yaqeen Ka Sabaat
My heart, which is a battlefield of life,
Where legions of doubt war with faith—
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیراسی سے فقیری میں ہُوں مَیں امیر
Yehi Kuch Hai Saqi Mataa-e-Faqeer
Issi Se Faqeeri Mein Hun Main Ameer
O Saki, these are all my wealth;
Possessing them, I am rich in my poverty.
Mere Kafle Mein Luta De Isse
Luta De, Thikane Laga De Isse!
Distribute all these riches in my caravan,
And let them come to some good use.
Stanza (4)
دما دم رواں ہے یمِ زندگیہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی
Damadam Rawan Hai Yam-e-Zindagi
Har Ek Shay Se Paida Ram-e-Zindagi
In constant motion is the sea of life.
All things display life’s volatility.
Issi Se Huwi Hai Badan Ki Namood
Ke Shaole Mein Poshida Hai Mouj-E-Dood
It is life that puts bodies forth,
Just as a whiff of smoke becomes a flame.
Garan Gharche Hai Sohbat Aab-O-Gil
Khush Ayi Isse Mehnat Aab-O-Gil
Unpleasant to it is the company of matter,
but it likes to see uts striving to improve itself.
Ye Sabit Bhi Hai Aur Sayyar Bhi
Anasir Ke Phandon Se Baizar Bhi
It is fixed, yet in motion,
straining at the leash to get free of the elements.
Ye Wahdat Hai Kasrat Mein Har Dam Aseer
Magar Har Kahin Be Chugun, Benazir
A unity imprisoned in diversity,
It is unique in every form and shape.
Ye Alam, Ye Butkhana-E-Shas Jihaat
Issi Ne Tarasha Hai Ye Somnaat
This world, this six‐dimensioned idol‐house,
This Somnat is all of its fashioning.
Pasand Iss Ko Takrar Ki Khoo Nahin
Ke Tu Main Nahin, Aur Main Tu Nahin
It is not its way to repeat itself:
You are not I, I am not you.
Mann-O-Tu Se Hai Anjuman Afreen
Magar Ayn-E-Mehfil Mein Khalwat Nasheen
With you and me and others it has formed assemblies,
but is solitary in their midst.
Chamak Iss Ki Bijli Mein, Tare Mein Hai
Ye Chandi Mein, Sone Mein, Paare Mein Hai
It shines in lightning, in the stars,
In silver, gold and mercury.
اسی کے بیاباں، اسی کے بَبُولاسی کے ہیں کانٹے، اسی کے ہیں پھُول
Issi Ke Bayabaan, Issi Ke Babool
Issi Ke Hain Kante, Issi Ke Hain Phool
Its is the wilderness, its are the trees,
Its are the roses, its are the thorns.
Kahin Iss Ki Taqat Se Kohsaar Choor
Kahin Iss Ke Phande Mein Jibreel-O-Hoor
It pulverizes mountains with its might,
And captures Gabriel and houris in its noose.
Kahin Jurrah Shaheen-E-Seemab Rang
Lahoo Se Chakoron Ke Aluda Chang
There is a silver‐grey, brave falcon here,
Its talons covered with the blood of partridges,
Kabutar Kahin Ashiyane Se Door
Pharakta Huwa Jaal Mein Na-Saboor
And over there, far from its nest,
A pigeon helplessly aflutter in a snare.
Stanza (5)
فریبِ نظر ہے سکُون و ثباتتڑپتا ہے ہر ذرّۀ کائنات
Faraib-E-Nazar Hai Sakoon-O-Sabaat
Tarapta Hai Har Zarra-E-Kainat
Stability is an illusion of eyes,
For every atom in the world pulsates with change.
Theharta Nahin Karwaan-E-Wujood
Ke Har Lehza Hai Taza Shaan-E-Wujood
The caravan of life does not halt anywhere,
For every moment life renews itself.
Samjhta Hai Tu Raaz Hai Zindagi
Faqat Zauq-E-Parwaaz Hai Zindagi
Do you think life is great mystery?
No, it is only a desire to soar aloft.
بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلندسفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند
Bohat Iss Ne Dekhe Hain Past-O-Buland
Safar Iss Ko Manzil Se Barh Kar Pasand
It has seen many ups and downs,
But likes to travel rather than to reach the goal;
Safar Zindagi Ke Liye Barg-O-Saaz
Safar Hai Haqiqat, Hazar Hai Majaaz
For travelling is life’s outfit: it
Is real, while rest is appearance, nothing more.
Ulajh Kar Sulajhne Mein Lazzat Isse
Tarapne Pharakne Mein Rahat Isse
Life loves to tie up knots and then unravel them.
Its pleasure lies in throbbing and in fluttering.
Huwa Jab Isse Samna Mout Ka
Kathan Tha Bara Thaamna Mout Ka
When it found itself face to face with death,
It learned that it was hard to ward it off.
Uter Kar Jahan-E-Makafat Mein
Rahi Zindagi Mout Ki Ghaat Mein
So it descended to this world, where retribution is the law,
And lay in wait for death.
Mazaq-E-Dooi Se Bani Zouj Zouj
Uthi Dast-O-Kohsaar Se Fouj Fouj
Because of its love of duality, It sorted all things out in pairs,
And then arose, host after host, from mountains and from wilderness.
Gul Is Shakh Se Tootte Bhi Rahe
Issi Shakh Se Phootte Bhi Rahe
It was a branch from which flowers kept shedding
and bursting forth afresh.
Samajhe Hain Nadan Issay Be-Sabaat
Ubharta Hai Mit Mit Ke Naqsh-E-Hayat
The ignorant think that life’s impress is ephemeral,
but it fades only to emerge anew.
Bari Taiz Jolan, Bari Zood Ras
Azal Se Abad Tak Ram-E-Yak Nafas
Extremely fleet‐footed, It reaches its goal instantly.
From time’s beginning to its end is but one moment’s way for it.
Zamana Ke Zanjeer-E-Ayyam Hai
Damon Ke Ulat Phair Ka Naam Hai
Time, chain of days and nights, is nothing but
A name for breathing in and breathing out.
Stanza (6)
یہ موجِ نفَس کیا ہے تلوار ہےخودی کیا ہے، تلوار کی دھار ہے
Ye Mouj-E-Nafs Kya Hai Talwar Hai
Khudi Kya Hai, Talwaar Ki Dhaar Hai
What is this whiff of air called breath? A sword,
and selfhood is that sword’s sharp edge.
Khudi Kya Hai, Raaz-E-Daroon-E-Hayat
Khudi Kya Hai, Baidari-E-Kainat
What is the self? Life’s inner mystery,
The universe’s waking up.
Khudi Jalwa Badmast-O-Khilwat Pasand
Samundar Hai Ek Boond Pani Mein Band
The self, drunk with display, is also fond of solitude;
—an ocean in a drop.
Andhere Ujale Mein Hai Taabnaak
Mann-O-Tu Mein Paida, Mann-O-Tu Se Paak
It shines in light and darkness both;
Displayed in individuals, yet free from them.
Azal Iss Ke Peeche, Abad Samne
Na Had Iss Ke Peeche. Na Had Samne
Behind it is eternity without beginning, and before it is eternity without an end;
It is unlimited both ways.
Zamane Ke Darya Mein Behti Huwi
Sitam Iss Ki Moujon Ke Sehti Huwi
Swept on by the waves of time’s stream,
And at the mercy of their buffeting,
تجسّس کی راہیں بدلتی ہوئیوما دم نگاہیں بدلتی ہوئی
Tajasus Ki Rahain Badalti Huwi
Damadam Nigahain Badalti Huwi
It yet changes the course of its quest constantly,
Renewing its way of looking at things.
سبک اس کے ہاتھوں میں سنگِ گراںپہاڑ اس کی ضربوں سے ریگِ رواں
Subak Iss Ke Hathon Mein Sang-E-Garan
Pahar Is Ski Zarbon Se Raig-E-Rawan
For it huge rocks are light as air:
It smashes mountains into shifting sand.
سفر اس کا انجام و آغاز ہےیہی اس کی تقویم کا راز ہے
Safar Iss Ka Anjaam-O-Aghaz Hai
Yehi Iss Ki Taqweem Ka Raaz Hai
Both its beginning and its end are journeying,
For constant motion is its being’s law.
خودی زمانے کے دریا میں بہتی ہے اور اس کی لہروں کے ظلم و ستم بھی برداشت کرتی ہے۔۔۔مراد یہ ہے کہ خودی زمانے کے ساتھ بغل گیر ( ہم آہنگ) ہے۔ خودی اور زمانہ ،یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہں ہوسکتے ۔خودی سے زمانے کی اور زمانے سے خودی کی حقیقت معلوم کی جاسکتی ہے ۔خودی اگر چہ زمان و مکان کی قید میں رہ کر ترقی کرتی ہے لیکن جب اپنے نقطہ کمال کو پہنچ جاتی ہے تو زمان و مکان پر حکمران ہوجاتی ہے،کیونکہ خالقِ خودی نے اس کے اندر یہ صلاحیتیں ودیعت فرمادی ہیں
چونکہ خودی کو اپنے اظہار کےلیے ایک جسم درکا ر تھا جس میں وہ سما کر اپنا جلوہ دکھانا چاہتی تھی ، اس لیے وہ جستجو کی راہیں بدل بدل کر ،اپنی متلاشی آنکھیں کھول کر آس پاس ،ارد گرد کا جائزہ لیتے ہوئے زمان و مکان کے دریا میں رواں دواں رہی تاکہ اس کو کسی مناسب وقت پر کوئی موزوں جسم مل جائے ،تاکہ یہ اس میں سما سکے اور اپنی شناخت کرواسکے۔
جب خودی مرتبہ کمال کو پہنچ جاتی ہے (اور اس کےلیے انسان کو بڑے مجاہدے کرنے پڑتے ہیں) تو پھر اس میں وہ طاقت پید اہوجاتی ہے کہ بھاری پتھر بھی اس کےلیے سبک اور بےوزن ہوکر رہ جاتا ہے،یہاں تک کہ اس (خودی) کی ضربوں سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر ریت میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔یہاں اقبالؒ یہ کہناچاہتے ہیں کہ جب خودی کا جزبہ مستحکم ہوجاتاہے تو بڑی سے بڑی شے بھی اس کے سامنے ہیچ (بے سود) ہوتی ہے
خودی کا آغاز بھی سفر ہوتا ہے اور انجام بھی۔ خودی کی استقامت اور استحکام کا راز اس کے مسلسل سفر کی حالت میں مضمر ہے۔ اگر وہ (خودی) ساکن ہوجائے تو فنا ہوجائے گی۔دراصل سفر سے یہاں مراد حرکت اور جدوجہد ہے کہ حرکت اور جدوجہد کے بغیر منزل تک رسائی مشکل ہی نہں ناممکن بھی ہوتی ہے
Kiran Chand Mein Hai, Sharr Sang Mein
Ye Berang Hai Doob Kar Rang Mein
It is a ray of light in the moon and a spark in stone. It dwells
In colors, but is colorless itself.
Isse Wasta Kya Kam-O-Baish Se
Nashaib-O-Faraz-O-Pas-O-Paish Se
It has nothing to do with more or less,
With light and low, with fore and aft.
Azal Se Hai Ye Kashmakash Mein Aseer
Huwi Khaak-E-Adam Mein Soorat Pazeer
Since time’s beginning it was struggling to emerge,
And finally emerged in the dust that is man.
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہےفلک جس طرح آنکھ کے تِل میں ہے: تشریحجس طرح اس بند کا پہلا شعر بے مثل ہے ،اسی طرح آخری شعر بھی بے نظیر ہے۔ اس شعرمیں خودی کا سب سے بڑ ا راز آشکار کی ہے یعنی خودی کا نشمین (مقام) انسان کے دل میں ہے۔ اب چونکہ یہ بات عقل میں نہیں آسکتی کہ خودی جو اس قدر غیر محدود طاقتوں کی مالک ہے، وہ دِل میں کس طرح سما سکتی ہے؟ اس لیے اقبالؒ نے بڑدی دلکش تشبیہ سے سمجایا ہے کہ اپنی آنکھ کے تِل پر غور کرو! اتنا بڑاآسمان اس ننھے سے تِل میں کس طرح نظر آجاتا ہے۔واضح ہو کہ عالمِ مادی میں آنکھ سب سے زیادہ عجیب و غریب بلکہ محیّر العقول آلہ یا کرشمہ ِ قدرت ہے ۔کوئی انسان آج تک اس راز کو نہیں سمجھ سکا کہ آنکھ کے تِل میں تصویر اُتر آتی ہے، اسے دماغ کس طرح سمجھتا ہے کہ یہ فلاں چیز ہے۔۔اتنا تو معلوم ہے کہ دماغ تصویر کو سمجھتا ہے لیکن سوال یہ کہ کس طرح سمجھتا ہے ،اس کا جواب کوئی نہیں دے سکتا۔اسی طرح خودی کا نشیمن دِل میں ہے،دِل سے مراد گوشت کا ٹکڑانہیںبلکہ وہ لطیفہِ نورانی جس کا دِل سے تعلق ہے۔اب اگر کسی کو اس کے سمجھنے کی آرزو ہو تو اس کی صورت یہ ہے کہاپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی
Khudi Ka Nasheman Tere Dil Mein Hai
Falak Jis Tarah Aankh Ke Til Mein Hai
It is in your heart that the Self has its abode,
As the sky is reflected in the pupil of the eye.
Stanza (7)
خودی کے نِگہباں کو ہے زہرِ نابوہ ناں جس سے جاتی رہے اس کی آب: تشریحدونوں کا راز سچ بولنے اور حلال روزی میں ہے۔ خلوت ہو یا جلوت ۔۔۔ دونوں حالتوں میں اللہ تعالیٰ کے جمال کا نظارہ کرنے میں ہے۔(جاوید نامہ: خطاب نہ جاوید سخنی بہ نثاد نو)صدقِ مقال اور اکلِ حلال وہ خوبیاں ہیں جن میں دین اسلام کی حقیقت پوشیدہ ہے یعنی جب تک انسان ان دوباتوں پر عمل نہ کرے وہ مسلمان نہیں بن سکتا۔وہ بو علی سینا بن سکتاہے،لارڈ بیکن بن سکتا ہے، شیکسپیئر بن سکتا ہے،تیمور بن سکتا ہے لیکن مسلمان نہیں بن سکتا۔ آج بفضلِ خدا سب کچھ موجود ہے لیکن مسلمانوں میں اسلام کی روح نظر نہیں آتی۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ صدقِ مقال اور اکلِ حلال یہ دونوں باتیں مفقود ہیں اور منطق میں یہ اصول مسلّم ہے کہ اذا فات الشرط فات المشروط، اسلام مشروط ہے اور اکلِ حلال شرط ہے۔جب شرط فوت ہوگئی تو مشروط ازخود فوت ہوجائے گا، پرفیسر یوسف سلیم چشتی
Khudi Ke Nigheban Ko Hai Zehr-E-Naab
Woh Naa Jis Se Jati Rahe Is Ski Aab
To one who treasures his self,
bread won at the cost of self‐respect is gall.
Wohi Naa Hai Iss Ke Liye Arjumand
Rahe Jis Se Dunya Mein Gardan Buland
He values only bread
he gains with head held high.
Firo Faal-E-Mehmood Se Darguzar
Khudi Ko Nigah Rakh, Ayazi Na Kar
Abjure the pomp and might of a Mahmud;
Preserve your self, do not be an Ayaz.
Wohi Sajda Hai Laaeq-E-Ehtamam
Ke Ho Jis Se Har Sajda Tujh Par Haraam
Worth offering is only that prostration
which makes all others forbidden acts.
Ye Alam, Ye Hangama-E-Rang-O-Soot
Ye Alam Ke Hai Zair-E-Farmaan-E-Mout
This world, this riot of colors and of sounds,
Which is under the sway of death,
Ye Alam, Ye Butkhana-E-Chasm-O-Gosh
Jahan Zindagi Hai Faqat Khurad-O-Nosh
This idol‐house of eye and ear,
In which to live is but to eat and drink,
Khudi Ki Ye Hai Manzil-E-Awaleen
Musafir ! Ye Tera Nasheman Nahin
Is nothing but the Self’s initial stage.
O traveller, it is not your final goal.
Teri Aag Iss Khaakdaan Se Nahin
Jahan Tujh Se Hai, Tu Jahan Se Nahin
The fire that is you has not come out of this heap of dust.
You have not come out of this world; It has come out of you.
Barhe Ja Ye Koh-E-Giran Torh Kar
Tilism-E-Zaman-O-Makan Torh Kar
Smash up this mountainous blockade,
Go further on and break out oft his magic ring of time and space.
خودی شیرِ مولا، جہاں اس کا صیدزمیں اس کی صید، آسماں اس کا صید
Khudi Sher-E-Mola, Jahan Iss Ka Sayd
Zameen Iss Ki Sayd, Asman Is Ka Sayd
God’s lion is the self; Its quarry is world
Its quarry are both earth and sky.
جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمودکہ خالی نہیں ہے ضمیرِ وجود
Jahan Aur Bhi Hain Abhi Be-Namood
K Khali Nahin Hai Zameer-E-Wujood
There are a hundred worlds still to appear,
For Being’s mind has not drained of its creative capabilities.
ہر اک منتظر تیری یلغار کاتری شوخیِ فکر و کردار کا
Har Ek Muntazir Teri Yalghaar Ka
Teri Shoukhi-E-Fikr-O-Kirdaar Ka
All latent worlds are waiting for releasing blows
From your dynamic action and exuberant thought.
یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگارکہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
Ye Hai Maqsad-E-Gardish-E-Rozgaar
K Teri Khudi Tujh Pe Ho Ashkaar
It is the purpose of the revolution of the spheres
That your selfhood should be revealed to you.
تُو ہے فاتحِ عالمِ خوب و زِشتتجھے کیا بتاؤں تری سرنوشت
Tu Hai Faateh-E-Alam-E-Khoob-O-Zisht
Tujhe Kya Bataon Teri Sarnawisht
You are the conqueror of this world of good and evil.
How can I tell you The whole of your long history?
حقیقت پہ ہے جامۀ حرف تنگحقیقت ہے آئینہ، گُفتار زنگ
Haqiqat Pe Hai Jama-E-Harf Tang
Haqiqat Hai Ayna, Guftaar Zang
Words are but a strait‐jacket for reality:
Reality is a mirror, and speech the coating that makes it opaque.
فروزاں ہے سِینے میں شمعِ نفَسمگر تابِ گُفتار کہتی ہے، بس!
Farozan Hai Sine Mein Shama-E-Nafs
Magar Taab-E-Guftaar Kehti Hai, Bas !
Breath’s candle is alight within my breast,
But my power of utterance cries halt.
’اگر یک سرِ مُوے برتر پَرمفروغِ تجلّی بسوزد پَرم،
‘Agar Yak Sir-E-Muay Bartar Param
Farogh-E-Tajali Basozd Param’
Should I fly even a hairbreadth too high,
The blaze of glory would burn up my wings.
No comments:
Post a Comment